حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا ہے کہ مرحوم آیت اللہ میرزا محمد حسین نائینی ایسی عظیم علمی و دینی شخصیت ہیں جنہوں نے عقلانیت، اجتہاد، اور مجاہدانہ بصیرت کو یکجا کر کے اسلامی فکر میں نئی جہتیں پیدا کیں۔
آیت اللہ اعرافی نے بین الاقوامی کانفرنس "میرزای نائینی" سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرزا نائینی کی یاد منانا درحقیقت علمی، اخلاقی اور تمدنی حیاتِ حوزہ کی تجدید ہے، نائینی وہ عالم مجاہد تھے جنہوں نے دین، عقل اور سیاست کے باہمی رشتے کو نہایت عالمانہ انداز میں واضح کیا۔
انہوں نے کہا کہ حوزہ علمیہ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اکابر کے آثار کو احیا کرے، کیونکہ یہی آثار آج کے طلبہ، اساتذہ اور محققین کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ آیت اللہ اعرافی کے بقول، “میرزای نائینی، عقلانیتِ دینی، آزادیِ فکری اور معنویت کے امتزاج کی روشن مثال ہیں، اور ان کی فکری میراث آج بھی امت اسلامی کے لیے رہنما ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ آیت اللہ نائینی کے چالیس سے زائد علمی و تحقیقی آثار اس کانفرنس میں پیش کیے جا رہے ہیں، جن میں ان کے فتاویٰ، استفتاءات اور اصولی مباحث شامل ہیں۔ یہ تمام آثار نہ صرف علمی گہرائی کے حامل ہیں بلکہ فقہ و اصول کے نظام اجتہاد میں ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔
سربراہ حوزہ علمیہ ایران نے کہا کہ میرزا نائینی کا مکتب فکر، سنتِ اجتہادی کی پاسداری اور جدید فکری چیلنجوں کے ادراک کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے نہ صرف علم اصول کو ایک منظم اور دقیق نظام میں ڈھالا بلکہ جدید فکری و اجتماعی سوالات کے جواب بھی فراہم کیے۔
آیت اللہ اعرافی نے واضح کیا کہ “مرحوم نائینی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ عالم دین اگر واقعی صاحبِ بصیرت ہو تو وہ نہ صرف اپنے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتا ہے بلکہ ان کا جواب بھی دین کے اصولوں کی روشنی میں دیتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ مرحوم نائینی نے مشروطہ تحریک اور استعمار مخالف قیاموں میں بھی مؤثر کردار ادا کیا، اور نجف و کربلا کے علمی مراکز میں ان کی فکری قیادت کا دائرہ نہ صرف ایران بلکہ پورے عالمِ اسلام تک پھیلا ہوا تھا۔
آیت اللہ اعرافی نے اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی اور مراجع عظام تقلید کے پیغامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رہنمائی اس کانفرنس کے لیے مشعلِ راہ ہے، اور ہمیں چاہیے کہ مراجع کے علمی و اخلاقی بیانات کو عملی شکل دینے کی کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ “مرحوم نائینی کا درس، ان کا قلم، ان کی روشِ اجتہاد اور سیاسی و سماجی شعور، آج کے طلبہ کے لیے نمونہ عمل ہے۔ وہ نہ صرف ماضی کے عالمِ ربانی تھے بلکہ مستقبل کے فکری رہنما بھی ہیں۔”
اختتام پر آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ حوزہ علمیہ کو چاہیے کہ وہ ماضی کے ان مفکرین کے فکری نظام کو جدید علمی زبان میں پیش کرے تاکہ آئندہ نسلیں نائینی جیسے بزرگوں کے پیغامِ عقلانیت، آزادی اور اجتہاد سے مستفید ہو سکیں۔









آپ کا تبصرہ